امریکہ دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں سے ایک

امریکی محکمہ خزانہ نے خبر جاری کی ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کل قومی قرضہ جات 30 ٹریلین ڈالر سے بڑھ گیا ہے، یہ رقم امریکی سالانہ اقتصادی پیداوار ، جسے عام طور پر کل ملکی پیداوار ( جی ڈی پی) کہا جاتا ہے ،کے تقریباً ایکسو تیس فیصد کےبرابر ہے، آنکھیں کھول دینےوالا یہ قرضہ ،امریکہ کودنیا بھرمیں سب سے زیادہ مقروض ملک بنا دیتا ہے۔امریکی وفاقی قرضہ عشروں سےبہت زیادہ رہاہےاور بڑھتا جارہا ہے، لیکن کرونا وائرس کی تیزی سےبڑھتی ہوئی وبا نے وفاقی حکومت کےقومی خزانے پربوجھ کومزید بڑھا دیا ہے۔سن دو ہزارانیس کے آخر میں اس وبا کے پھیلنے سے پہلے قومی قرضہ جات، بائیس کھرب سے زیادہ تھے،ایک سال بعد یہ پانچ کھرب بڑھ کر ستائیس کھرب کے قریب ہو گئے، اس کے بعد سے ملک پر دو کھرب ڈالرکا مزید قرض بڑھ گیا۔تیس کھرب قرضےکایہ عدد اپنےطور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن بہت سے لوگ اسے مستقبل کی معیشت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح ، جو کسی بھی ملک کے مقروض ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے ، اس کے حساب سے امریکہ دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔عالمی بینک کے اکتوبر کے اعدادو شمار کے مطابق،جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرض دار ملک جاپان ہے ،جس کا قرض ملکی اقتصادی پیداوار کے دوسو ستاون فیصد کے برابر ہے ۔دوسری ترقی پزیر معیشتوں میں یونان کی جی ڈی پی کے مقابل قرضے کی شرح دوسو سات فیصد اور اٹلی کی ایک سو پچپن فیصد ہے۔ایک سو تینتیس فیصد کی شرح کے ساتھ ،مجموعی طور پر امریکہ سب سے مقروض ملکوں میں بارہویں نمبر پر ہے،جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ہر سال وفاقی خسارہ جمع ہوتے ہوئے یہ قومی قرضہ بڑھا ہے، پچھلے پچاس سالوں کے مقابلے میں صرف چار سالوں میں ،انیس سو اٹھانوے سے لیکر سن دوہزار ایک تک ،امریکی اخراجات کے مقابلے میں خزانے میں فاضل رقم تھی، جن میں پہلا سال ایک ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کا تھا ، جبکہ باقی تین سال ایک ڈیموکریٹ بل کلنٹن انتظامیہ کے تھے۔حالیہ عشروں میں ، ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن دونوں نے اس سے قطع نظر کہ وہائٹ ہاؤس میں کون بر سر اقتدار تھا، بڑے پیمانے پر ،قرضےلیے جس سے وفاقی قرضہ مسلسل بڑھتا رہا۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بہت سے کانگریس کے ارکان میں مایوسی کا سبب ہے، جب کہ ان کے کچھ ساتھی ارکان کو مسئلے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔نبراسکا کے ریپبلکن سینیٹر بین سیسسے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ قرضے میں تیس کھرب کا ہندسہ قابل نفرت ہے ،لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے زیادہ تر سیاستدانوں کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے، جب یہ سیاستدان نہیں ہوں گے تو کسی کو تو یہ قیمت چکانی ہو گی؛ ظاہر ہے خرابی کے ذمّہ داروں کو یہ ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی بلکہ انہیں بلکہ ہمارے بچےاداکریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں