برسلز میں قائم پاک بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان نے باہمی معاہدے پر دستخط

برسلز(ایچ آراین ڈبلیو) برسلز میں قائم پاک بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان نے باہمی معاہدے پر دستخط کردیئے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں تنظیمیں پاکستان میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے اور زراعت میں توانائی سے بھر پور اجناس کی پیداوار کیلئے بینیلکس ممالک کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کا نہ صرف ڈیری اور ایگری فارمر خوشحال ہوگا۔ بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی یہ سیکٹر اپنا حقیقی کردار ادا کر پائےگا۔ اس معاہدے پر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کی جانب سے اس کے صدر شاکر عمر گجر اور پاک بینیلکس اوورسیز کی جانب سے حافظ اُنیب راشد نے دستخط کیے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شاکر عمر گجر نے کہا کہ ان کی یہ شدید خواہش ہے کہ میرا کسان نہ صرف پاکستان کی بڑھتی ہوئی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو بلکہ وہ اپنی مصنوعات کی درست قیمت بھی حاصل کر سکے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے فارمرز ترقی پسند بنیں اور دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور ان کے مشاہدے کیلئے وہ دنیا بھر کا سفر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ دوسری جانب پاک بینیلکس اوورسیز چیمبر کے صدر حافظ اُنیب راشد نے ایم او یو پر دستخط کرنے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں قوموں کی ترقی کا ایک ہی فارمولا ہے کہ وہ اپنی ترقی کے بارے میں خود سو چتی ہیں ۔ کوئی بھی باہر سے آکر ان کو ترقی نہیں دے گا۔ ترقی کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ قومیں سب سے پہلے اس چیز پر محنت کرتی ہیں جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم آج تک اپنی زراعت کو اس سطح پر نہیں لے جا سکے جہاں ہم اپنی ضروریات ہی پوری کرنے کے قابل ہوگئے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیک ہولڈرز آگے بڑھیں اور باہمی تعاون سے اس منزل کو حاصل کر لیں۔ دونوں فریقین کے درمیان اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ پاکستان میں دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے جانوروں کی نسل میں بہتری کی سخت ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان میں موجود دودھ دینے والی نسلوں کا دودھ دینے کا دورانیہ بھی انتہائی کم ہے۔ اس کے علاوہ دودھ کی فروخت کی بڑی مارکیٹ میٹرو پولیٹن شہروں میں صرف ماں کا دودھ بچانے کیلئے پیدا ہونے والی نسلوں کو بھی فوری طور پر ذبح کردیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں نہ صرف ہم اپنے جانوروں کی نئی نسل سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ بڑے جانوروں سے بھی صرف ایک سال دودھ لیکر انہیں پیٹ کا ایندھن بنا ڈالتے ہیں۔ اس سارے عمل کو ریورس کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جانور 8 لٹر ایوریج کی بجائے 20 لٹر دودھ دینے والے ہوں اور ان کا دودھ دینے کا دورانیہ بھی ایک سال کی بجائے 4 سے 5 سال پر محیط ہوجائے۔ اسی طرح زراعت ان دودھ دینے والے جانوروں کی خوراک کا اصل مرکز ہے۔ وہاں سے اگر توانائی سے بھرپور خوراک پیدا ہوگی تو اسی کے ذریعے جانوروں کو بہتر خوراک حاصل ہوگی۔ اس سارے عمل کو باہم ملانے اور اسے ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی سخت ضرورت ہے۔ جس کیلئے بینیلکس ممالک سے حاصل تجربات کو پاکستان میں ایگری سیکٹر کی ترقی سے ملا کر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ معاہدے کے دوران اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ حکومت چارے میں استعمال ہونے والی مختلف اجناس کی ایکسپورٹس پر کم از کم اتنی پابندی ضرور عائد کرے جس سے فی الحال دودھ کی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں مدد مل سکے اور بنیادی ضرورت کے طور پر دودھ عوام کی دسترس میں رہے۔