ٹرانسجینڈر قانون کے غلط استعمال کی مثال وفاقی شرعی عدالت میں پیش

اسلام آباد (ایچ آراین ڈبلیو) نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف کیس میں شرعی عدالت میں جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ خواجہ سرا اپنی جو جنس منتخب کرتا ہے ہم وہی اندراج کرلیتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس سید محمد انور کی سربراہی میں میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قانون میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ خواجہ سرا الماس بوبی نے بھی قانون کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ محض کسی کے احساس کی بنیاد پر جنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا، آج میرے احساسات مرد والے، کل عورت والے ہونگے تو کیا میں اس بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرتا رہوں، کل اگر میں محسوس کروں ملک کا وزیراعظم ہوں تو کیا مجھے وزیراعظم والا شناختی کارڈ دے دیا جائے گا، این جی اوز کہتی ہیں ہم جنسی پرستی کریں ساتھ ہی ایڈز سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں، ہمیں تو سعودی عرب میں حج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ خواجہ سرا جولی خاں نے دلائل دیے کہ ہمیں میڈیکل کرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمارے حقوق کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے، میڈیکل بورڈ کے ذریعے تعین ہونا چاہیے میری جنس کیا ہے۔ نادرا کی طرف سے تحریری جواب جمع کرا دیا گیا جس کے مطابق جو خواجہ سرا اپنی جنس منتخب کرتا ہے ہم اس کے مطابق اندراج کر لیتے ہیں، سن 2012 سے لیکر آج تک تین ہزار 41 خواجہ سراؤں کا اندراج کیا گیا، خواجہ سراؤں کے تحفظ کے قانون سے قبل نادرا مرد خواجہ سرا یا عورت خواجہ سرا کے نام سے اندراج کرتا رہا، جب قانون بنا تو ایکٹ کے تحت ایکس کا اندراج شروع کیا گیا، نادرا ریکارڈ کے مطابق 1953 مرد خواجہ سرا اور 902 عورت خواجہ سرا کا اندراج کیا گیا۔ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے نادرا کے وکیل سے اہم سوال کیا کہ کیا کسی شخص نے خواجہ سرا کی شناخت کو ختم کرنے کیلئے نادرا میں درخواست دی؟۔ وکیل نادرا نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ریکارڈ چیک کرکے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔ وکیل جے یو آئی ف کامران مرتضی نے کہا کہ یہ جانچنا ضروری ہے کہ تاثر میں تبدیلی کیا ذہنی خرابی کے سبب تو پیش نہیں آئی، یہ بھی جانچ ہونی چاہیے تاثر میں تبدیلی کی وجہ بدنیتی تو نہیں۔ٕ جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل دیے کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ سے خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی، ذاتی پسند ناپسند پرجنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا، میر اجسم میری مرضی ، میرااحساس میری مرضی کا نعرہ اسلامی معاشرے میں نہیں چل سکتا، سوشل میڈیا پرسینیٹر مشتاق احمد خان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے پوچھا کہ کسی کی عزت اچھالنے کی اجازت نہیں، کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا؟ سینیٹر مشتاق خان نے بتایا کہ پنجاب پولیس نے آئی جی کو خط لکھاکہ خواتین پولیس اہلکار خواجہ سراکے ساتھ ٹریننگ کیلئے تیار نہیں، وہ خواجہ سرا لڑکی بن کر بھرتی ہوگیاتھا، قانون کے غلط استعمال کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ دوران سماعت وزارت انسانی حقوق اور نادرا نے اپنی رپورٹس جمع کرادیں ،وزارت انسانی حقوق نے رپورٹ میں کہا کہ قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی ، سندھ اور خیبرپختونخواکی جیلوں میں پانچ خواجہ سرا قید ہیں ، پنجاب، بلوچستان میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے، اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سنٹر میں 100خواجہ سرا کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔ نادرا وکیل نے کہا کہ یہ قانون آنے سے پہلے شناختی کارڈمیںمر دخواجہ سرا یا خاتون خواجہ سرا لکھا جاتا تھا اب ایسا نہیں، قانون آنے کے بعد اب ہرخواجہ سرا کی مرضی کے مطابق صنف لکھی جاتی ہے۔ نمائندہ این جی اوزشیرخان نے بتایا کہ نادرا میں ایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات نتاشا کو ہراساں کیا گیا ،خواجہ سرا نتاشا نے مقدمہ درج کرارکھا ہے۔ چیف جسٹس وزارت انسانی حقوق کے حکام پر برہم ہوگئے اور کہا کہ تیسری مرتبہ عدالت میں غلط بیانی کی گئی ہے، بتایا گیا کہ کسی خواجہ سرا نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔ غلط جواب پروزارت انسانی حقوق کے حکام نے عدالت سے معذرت کرلی اور کہا کہ وزارت داخلہ نے جو رپورٹ دی ویسے ہی عدالت میں جمع کرائی۔ عدالت نے حقائق پر مبنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ این جی او ٹرانسجینڈر ریسرچرکے نمائندے نے جماعت اسلامی پر الزام لگا دیا۔ نمائندہ این جی اوزشیرخان نے کہا کہ جماعت اسلامی خواجہ سراؤں کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ سینیٹر مشتاق خان نے اعتراض کیا کہ میری جماعت پر بغیر ثبوت الزام لگایاگیاہے۔ عدالت نے این جی او کے نمائندہ کو ایسے الزامات لگانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 29نومبر تک ملتوی کردی۔