افغان جنگ میں نہتے شہری کو قتل کرنے والا آسٹریلوی فوجی 3 سال بعد گرفتار

نیو ساﺅتھ ویلز(ایچ آراین ڈبلیو) آسٹریلیا میں 41 سالہ سابق فوجی اہلکار کو افغانستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کا دستہ پہلی بار 2001 اور پھر 2005 میں بھیجا گیا تھا۔ افغان جنگ کے دوران ان دستوں نے نیٹو اتحادی فوج کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ آسٹریلوی فوجی بھی گزشتہ برس طالبان کے اقتدار سنبھالنے پر نیٹو اتحادی افواج کے ہمراہ اپنے وطن لوٹ گئے تھے تاہم افغانستان میں تعیناتی کے دوران آسٹریلوی فوجیوں پر کئی معصوم شہریوں کے قتل کے الزامات لگے تھے۔ جس پر آسٹریلیا کے محکمہ ’’آفس آف اسپیشل انوسٹی گیٹر‘‘ نے تحقیقات کیں اور ایک فوجی اہلکار کو افغان شہری کے قتل میں ملوث پایا جس پر وفاقی پولیس نے ’’آسٹریلوی ڈیفنس فورس‘‘ کے 41 سالہ فوجی کو نیو ساؤتھ ویلز سے گرفتار کرلیا۔ آسٹریلوی فوجی کو جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ پہلے آسٹریلوی فوجی ہے جن پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے گا اور الزام ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ آسٹریلوی پولیس نے دوفوجی اہلکار کی گرفتاری اور عدالت میں پیش کرنے کی تصدیق کی ہے تاہم اہلکار کا نام اور عہدہ ظاہر نہیں کیا۔ تاہم آسٹریلوی خبر رساں ادارے ’’اے بی سی‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار اہلکار کا نام اولیور شولز ہے جسے مارچ 2020 میں نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم میں زمین پر پڑے ایک افغان شہری کو گولی مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد مذکورہ اہلکار کو فوج سے ہٹا دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 2005 سے 2016 کے درمیان افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے آسٹریلیا میں ’’آفس آف اسپیشل انوسٹی گیٹر کا قیام‘‘ عمل میں لایا گیا تھا۔ آفس آف اسپیشل انوسٹی گیٹر کا قیام 2020 کی بریریٹن رپورٹ کے بعد کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ آسٹریلوی فوجیوں نے افغانستان میں 39 معصوم اور نہتے شہریوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا تھا۔ آفس آف اسپیشل انوسٹی گیٹر نے اپنے قیام کے بعد پہلی تحقیقاتی رپورٹ میں سفارش کی کہ 2009 سے 2013 کے درمیان افغانستان میں قیدیوں، کسانوں یا عام شہریوں کے قتل پر 19 آسٹریلوی فوجیوں سے تفتیش کی جائے۔ آفس آف اسپیشل انوسٹی گیٹر نے یہ بھی سفارش کی کہ ان فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات فوجی عدالت کے بجائے سویلین کورٹس میں سنے جائیں۔