ڈھاکہ (ایچ آراین ڈبلیو) ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکر… یہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے تین طالب علم ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں اتنی بڑی تحریک چلائی کہ وزیراعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑنا پڑ گیا۔ تینوں عام گھروں سے آتے ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں ہے۔ کچھ چھوٹے مظاہروں کا حصہ رہے۔ لیکن ریزرویشن کی آگ نے ان میں اتنا غصہ بھر دیا کہ وہ حکومت سے لڑ پڑے۔ رہی سہی کسر سرکار نے پوری کردی ۔ ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ انہیں ہراساں کیا گیا جس کی وجہ سے غصہ مزید بڑھتا چلا گیا۔ بات اسی سال 19 جولائی کی ہے، جب محمد ناہید اسلام کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔ الزام لگایا گیا کہ اس پر حملہ کیا گیا۔ ناہید کے بائیں ران، دونوں ہاتھوں اور کندھے پر چوٹ کے نشانات تھے۔ ناہید نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں کچھ لوگ آئے اور اسے دوست کے گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ پھر مارا پیٹا گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو سڑک کے کنارے پڑا ہوا پایا۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ناہید کی والدہ ممتاز بیگم اور والد بدرالاسلام اپنے بیٹے کا پتہ جاننے کے لیے ڈیٹیکٹیو برانچ کے دفتر کے سامنے سارا دن انتظار کرتے رہے، لیکن اسے کچھ نہیں بتایا گیا۔ 26 جولائی کو یہ واقعہ دوبارہ پیش آیا، جب ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکر کو پولیس کے سراغ رساں ونگ نے اسپتال سے اٹھایا۔ تب پولیس نے کہا کہ تینوں کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر حراست میں لیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ناہید کو لوہے کی سلاخوں سے مارا گیا جبکہ آصف کو انجکشن لگایا گیا جس کے باعث وہ کئی روز تک بے ہوش رہا۔ ناہید نے بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں 24 گھنٹے تک بے ہوش رہا۔ دونوں نے دعویٰ کیا کہ ایجنسیوں نے ان پر تحریک روکنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments