سندھ ہائیکورٹ نےڈی ایچ اے میں زمینوں کاخود دورہ کیا،ڈی ایچ اے کا دائرہ تنگ

کراچی(ایچ آراین ڈبلیو)ڈی ایچ اے کا دورہ سندھ ہائیکورٹ کیس 2316/2021 میں محترم جج ذوالفقار احمد خان کے حکم پر ہوا۔ کیس کراچی کے معروف سماجی کارکن فرحان وزیر، ماحولیاتی ماہر احمد شبر و دیگر ڈیفنس کے رہائشیوں نے کراچی کے سمندر کی چوری، سمندری جنگلات کی غیر قانونی کٹائی و کراچی کی ملٹری زمینوں کا غیر قانونی استعمال پر سندھ ہائیکورٹ میں کیا تھا، جس پر عدالت نے 22 اکتوبر کو حکم التوا جاری کرتے ہوئے سارے جڑے ہوئے اداروں کو کاغذات جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا، جس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم، ملٹری اسٹیٹ آفس، سول ایوی ایشن، پاکستان ایئر فورس و دیگر شامل ہیں۔فرحان وزیر کا کہنا تھا کہ عدالتی انویسٹیگیشن میں مرینہ کلب کے سیکرٹری جو کے ریٹائرڈ بریگیڈئر ہیں، حیران کن انکشافات کرتے ہوئے بتایا کے مرینہ کلب کی بلڈنگ 1997ء میں بنائی گئی اور جب سندھ ہائیکورٹ کے مقررہ نعزر نے لیز کا پوچھا تو پتا چلا کہ لیز ایم ای او سے 2020ء میں ملی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ کراچی کی سب سے پہلی چئینا کٹنگ بھی ڈی ایچ اے نے ہی خبان صادی میں کی تھی، 2020ء میں ڈیفنس کی زیر آب آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ڈی ایچ اے کی چئینا کٹنگ بھی تھی۔ ملتا جلتا حال کریک اور دیگر عمارتوں کا تھا، جب کے سیوئیر جو کے کولف کلب اور ایریا 51 کے درمیان میں لوگوں کے تفریحی کی جگہ تھی اسے بھی ڈی ایچ اے نے اپنے قبضے میں لے لی ہے جس کا کل رقبہ 117 ایکڑ ہے اور حکم التوا جاری ہونے کے باوجود بھی ڈی ایچ اے نے وہاں کام جاری رکھا ہوا ہے۔سمندر پر قبضہ کرکر اوپر بننے والے غیر قانونی پروجیکٹ جیسے واٹرفرنٹ پروجیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کریک مرینہ، ایچ ایم آر واٹرفرنٹ اور ایمار واٹرفرنٹ کے پروجیکٹ شامل ہیں۔ یہ سارے پروجیکٹ 22 کروڑ عوام کو غلام ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس زمین کی اگر مالیت لگائی جائے تو یہ آئی ایم ایف سے مانگی گئی بھیک سے زیادہ ہے۔فرحان وزیر کا کہنا ہے کہ آپ تسلیم کریں یا نا کریں پاکستان میں 22 کروڑ معصوم عوام مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ سب نے اپنا اپنا کام بانٹا ہوا ہے۔ کوئی بھی بڑا قبضہ مافیا ہو یا کے الیکڑک جیسے لٹیروں کی کمپنی سب کے سب عوام کے مال لوٹ رہے ہیں اور بیچاری محترم عدلیہ کے حکم کو جوتے کی نوک پر رکھے جا رہے ہیں۔ کسی بھی بڑے لیگل مافیا کی جانچ کرے گے تو اس میں ریٹائر کرنل، برگیڈیئر یہاں تک کہ جنرل بھی کسی بڑے اودے پر ملے گا۔ پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے، کیس اس امید کے ساتھ عدلیہ کے سامنے لے کر گے ہیں تاکہ قومی اثاثوں کو قومی مفاد میں قبضہ مافیا سے بچا کر رکھا جا سکے۔نواز شریف کی حکومت میں محکمہ موسمیات نے ایک خط وزیر اعظم کو لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ 2060 میں سمندر واپس اپنی زمین لینے آئے گا۔ اگر آج عدالت نے قوم کا ساتھ نا دیا تو کراچی جو پورے ملک کو چلاتا ہے وہ ذیرے آب آجائے گا۔ماہرے ماحولیات احمد کا کہنا ہے کہ سمندری جنگلات کے بچاؤ کیلئے ممبئی کی عدالت میں اسے right to life کہا ہے۔ پوری دنیا میں سمندر کے جنگلات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ڈی ایچ اے و دیگر ادارے اپنی لالچ میں صرف مینگرف کو ہی نہیں بلکہ عوامی تحفظ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔25 نومبر کو عدالت کا بقیہ زمینوں کا دورہ ہے۔ ایک عدلیہ ہی ہے جو کراچی کو بچا سکتی ہے۔ فرحان وزیر کا کہنا ہے کے عوامی طاقت کے ساتھ عدلیہ کی بالادستی کرے گے اور قومی مفاد کے لیے جان بھی دینے سے دریغ نہیں کرے گے۔ پاکستان کی جان کراچی ہے اور ہمارا ایمان کراچی کی ترقی سے جڑا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں