عدالتی امور میں مداخلت کی ذمہ داری وزیراعظم اور کابینہ پر عائد

اسلام آباد (ایچ آراین ڈبلیو) عدالتی امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ انٹیلی جنس ادارے اگر کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدلیہ کے کام میں مداخلت اندر اور باہر دونوں سے ہو سکتی ہے یہ کام انٹیلیجنس ایجنسیاں اور آپ کے ساتھی دونوں کر سکتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ملک میں اس سلسلے میں قانون سازی نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بھی واضح نہیں کہ قانون سازی سے بھی کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔

منگل کو سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائر عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’ملک میں بہت زیادہ تفرقہ ہے اور شاید لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کا مخصوص نظریہ عام ہو۔ یہ بڑا مایوس کن امر تھا جب سابق چیف جسٹس پر حملے شروع ہوئے اور وہ کمیشن کے ساتھ اپنا کام جاری نہیں رکھ سکے۔ اور جب یہ حملے ہمارے اندر سے ہوتے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘

بعد میں مقدمے کی سماعت سات مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں میں کہا کہ پانچ ہائی کورٹس نے اور پاکستان بار کونسل نے اپنی تجاویز بھی جعع کروائیں، مناسب ہو گا بار ایسویسی ایشنز اور بار کونسلز متفقہ طور پر کوئی جواب جمع کرائیں، جن نکات پر اتفاق نہ ہو ان کو الگ دائر کیا جاسکتا ہے۔

حکم میں مزید کہا گیا کہ کوئی تجاویز جمع کرانا چاہے کرا سکتا ہے، اٹارنی جنرل الزامات کا جواب یا تجاوز دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر کوئی خفیہ ادارے کا نام آیا اور وہ جواب جمع کرانا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے کرا سکتا ہے۔