ہم آج تک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں، ڈاکٹر خالد عراقی

کراچی
جامعہ کراچی کے چانسلر ڈاکٹر خالد فاروقی نے کہا ہے کہ ہم آج تک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں،ہمیں افسانوں سے نکل کر حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے ڈاکٹر محمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی اور فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کے اشتراک سے انسٹی ٹیوٹ ہذا کی سماعت گاہ میں تمر کے جنگلات کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ ایک روزہ سیمینار بعنوان: ”تمرکے جنگلات کے بچاؤ کی اہمیت“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ ہم آج تک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں،ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم بغیر تحقیق کے منصوبے شروع کردیتے ہیں۔ہمیں افسانوں سے نکل کر حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو ہر سال سیلابی صورتحال اور تواترکے ساتھ درجہ حرارت میں اضافے کا سامنا ہے لیکن ان مسائل کے مستقل حل کے لئے ہم تاحال عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ہمیں سیلابی صورتحال سے نبردآزماہونے کے لئے تمر کے جنگلات میں اضافہ اور اس کی حفاظت کویقینی بنانے کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر اپنا اپنا کردار اداکرناہوگا۔یہ جنگلات ساتھ ہی ماحول کو بہتر بنانے اور درجہ حرارت کو کم کرنے میں بھی کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔دنیا کے متعددممالک میں تمر کے جنگلات کو استعمال کرکے بہت سے مسائل بالخصو ص سیلابی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔

ڈاکٹرمحمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلوفائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر عرفان عزیز نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمر کی جنگلات کی اہمیت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے سدباب میں کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تمر کے جنگلات ایک منفرد ماحولیاتی نظام ہے جو ساحلی علاقوں اور ڈیلٹا کے توازن کو برقراررکھتے ہیں۔ڈاکٹر عرفان عزیز نے مزید کہا کہ ہماری ساحلی پٹی کے تقریباً1000 ہیکٹر پر تمر کی چار اقسام موجود ہیں جو ان علاقوں کو سمندری سیلاب،سونامی اور زمینی کٹاؤ سے بچاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمر کے یہ جنگلات فضائی آلودگی کو کم کرنے میں بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک ہیکٹر پر موجود تمر کے جنگلات تقریباً ایک ہزار میٹر ک ٹن کے مساوی کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سندھ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کے چیف کنزرویٹرریاض احمد وگن نے کہا کہ صوبائی حکومت سندھ کی ساحلی پٹی پر پائے جانے والے تمر (منگروز) کے جنگلات کی بحالی اور تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ کے تمر کے یہ جنگلات پانی کے بہاؤ میں تبدیلی،زمینی کٹاؤ،موسمیاتی تبدیلیوں اورچراگاہوں کے طور پر استعما ل ہونے کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ماضی میں پاکستا ن میں تمر کی آٹھ اقسام پائی جاتی تھیں جن میں سے چار اب معدوم ہوچکی ہیں۔انہوں نے ورلڈ بینک کی 2022 ء کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تمر کے یہ جنگلات ماحولیاتی اہمیت کے ساتھ ساتھ معاشی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔ایک ہیکٹر پر محیط تمر کا جنگل 58 ہزار امریکی ڈالرزکے اثاثے کے مساوی ہوتاہے،اس لحاظ سے انڈس ڈیلٹا میں پائے جانے والے تمر کے جنگلات تقریباً12200 ملین ڈالرز کے مساوی معیشت کے حامل ہیں جس میں فشریز،لکڑیاں،چارے اور سیاحت شامل ہیں۔

انڈونیشین یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈولی پریاتنا نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیاء میں دنیا کے سب سے وسیع تمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جن کا رقبہ 3.3 ملین ہیکٹرہے جو دنیا کے تمر کے جنگلات کا 23 فیصدبنتاہے،مگر ماحولیاتی اور ترقیاتی اسباب کی وجہ سے چالیس فیصد تمر کے یہ جنگلات متاثر ہورہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تمر کے یہ جنگلات بہت سے جنگلی حیوانات جن میں سوماترن ٹائیگر،ہاتھی اور دیگر جانورشامل ہیں کا مسکن ہیں،اسی لئے انڈونیشین حکومت نے بہت سے تمرکے جنگلات کی بحالی اور حفاظت کے لئے ٹھوس اقدامات شروع کئے ہیں۔

اس موقع پر یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولے کا پیغام بھی پڑھ کرسنایا گیا جس میں انہوں نے تمر کے جنگلات کی اہمیت کے باعث یونیسکو کے زیراہتمام تمرکے جنگلات کے حوالے سے جاری مختلف منصوبوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی اور سامعین کو بتایا گیا کہ اس سال دسمبر میں تمر کے جنگلات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقادابوظہبی میں کیاجارہاہے۔

رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے کہاکہ تمر کے جنگلات کو غیر ضروری سمجھا جاتارہاہے،مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔تمر کے جنگلات کو شہد کی پیداوار اور بہت سے اہم حشرات الارض کی پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔سیمینار سے ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی ڈاکٹر فرخ نوازنے بھی خطاب کیا۔