کلیم امام کےخلاف ڈسپلنری ایکشن کی سفارش کی گئی ہے، سعید غنی

کراچی (ایچ آراین ڈبلیو) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کلیم امام کےخلاف ڈسپلنری ایکشن کی سفارش کی گئی ہے، کابینہ نے آئی جی سندھ کو ہٹانے کےاسباب وفاق کو ارسال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کابینہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر بات کرتےہوئے سعید غنی نے کہا کہ موجودہ آئی جی سندھ نے کابینہ کا اعتماد کھو دیاہے. کراچی سمیت کئی اضلاع میں بھتری کےبجائےامن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ سعید غنی نے وزیر اعلی ہاوس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ کو خطوط لکھےگئے. تیرہ دسمبر کو آئی جی کو بتایا گیا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سےرجوع کررہی ہے، اس دوران آئی جی کلیم امام نے غیرذمہ دارانہ بیانات دئیے، پولیس کی بگڑتی کارکردگی اور آئی جی سندھ کے غیر خلاف قانون رویوں پر سندھ حکومت نےذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کا دفاع جاری رکھا مگربدقسمتی سےپولیس کی کارکردگی بھترنہیں ہوئی۔آئی جی فرماتے ہیں کہ مجھے ٹی وی کےزریعے افسران کو ہٹانے کا علم ہوا، جبکہ متعلقہ آفسر آئی جی کے ناپسندیدہ آفسر تھے جبکہ ایک ایس ایس پی جسکا تبادلہ سندھ حکومت نے کیا انکی کی خدمات وفاق نے مانگیں تھیں لیکن آئی جی سندھ غیر زمے دارانہ بیانات دیتے رہے۔ایس ایس پی کو سندھ سےبھیجنے پر آئی جی نےاعتراض کیا۔ سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا محکمہ براہ راست مختلف سفارت خانوں کو خط لکھتارہا جو کسی صورت بھی قانون اجازت نہیں دیتا اورکچھ انٹیجنس ایجنسیوں نےچیف سیکریٹری کو خط لکھاکہ پولیس افسران کو روکاجائے کہ وہ برائے راست غیر ملکی سفارت خانوں سے رجوع نہ کریں کیوں کہ یہ کام محکمہ خارجہ کے توسط سے ہوتا ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کو خطوط بھی براہ راست لکھےگئے اور یہ سب کچھ کلیم امام صاحب کے زیر سایہ ہوتا رہا۔بسمہ اوردعامنگی اغوا کیس بھی ہوا۔ دعا منگی کیس میں ان کے گھر والوں کو بھی پولیس پر اعتماد نہ رہا، اس سے قبل ارشاد رانجھانی کا قتل ہوا جس میں پورے سندھ میں غم و غصہ پایا گیا کیوں کہ واقعےمیں ارشاد رانجھانی کو مبینہ طور پر پولیس موبائل میں گولیاں ماری گئ جس کے بعد بد قسمتی سے لاڑکانہ میں دو معصوم جانیں ضائع ہوگئیں۔ تمام ایس ایس پیز اور ایڈیشنل آئی جیز آئی بھی کلیم امام کی تجویز پر تعنیات ہوتے رہے مگر حالات روز بروز خراب ہوتے رہے۔سی پی او آفس اور افسران کےمکانات پر بےپناہ خرچہ کیاگیا جبکہ کم پیسوں میں دفاتر اور گھر ٹھیک ہوسکتے تھے۔صوبائی حکومت کو رپورٹ دی جاتی تھی کہ اتنےملزم پکڑلیے تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ اعدادوشمار غلط تھےمسائل کافی عرصےسےچل رہےتھے ہماری کوشش تھی کہ آئی جی معاملات کو بھترکرلیں۔ مگر ایسا نہ ہوا حوالات میں قیدیوں تک ویڈیوز بنانے کی اجازت دی جاتی رہی۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ صرف سندھ میں ہی کیوں ہوتاہے۔ وزیر اعلی نے آئی جی کواحکامات دئیےمگر کسی پر عمل نہ ہوتا تھاصوبائی وزیر پر جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی پولیس کا نظام بھتر نہ ہوتو اقدام۔اٹھاناپڑتاہے۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کتنے آئی جی تبدیل ہوئےکبھی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
دیگر آئی جیز کی تبدیلی پر ط کی پالیسی تھی جس کا صوبوں میں بھی اطلاق ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں