یکساں نظام تعلیم، اساتذہ کی فوجی طرز پر تربیت، خواتین کی تعلیم وقت کی ضرورت، شوری ہمدرد

کراچی (ایچ آراین ڈبلیو) ہمدرد فاﺅنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام شوریٰ ہمدرد کراچی کا اجلاس جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت ہمدرد کارپوریٹ آفس میں منعقد ہوا جس کا موضوع تھا ”ہمارا نظام تعلیم اور بدلتی ہوئی دنیا“ ۔ اجلاس میں ماہر تعلیم اور مشہور صحافی زبیدہ مصطفی کو بہ طورمہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہئیں اور زیادہ توجہ لڑکیوں کی تعلیم پر ہونی چاہیے۔ ایک پڑھی لکھی عورت ہی معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کے حوالے سے حکومتی اعداد و شمار بہت ہی افسوس ناک ہیں۔ تقریباً 23ملین بچے تعلیم حاصل نہیں کرر ہے ہیں۔ مزید براں حکومت کے پاس اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی حتمی یا سائنسی یامعیاری میکانزم نہیں ہے کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کے میکانزم کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہا کہ خستہ حال اسکول جب تک موجود ہیں تعلیم کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔نیم خواندہ اساتذہ تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ان کی تربیت فوجی بنیادوں پر ہونی چاہیے تاکہ ان میں ڈسپلن پیدا ہو اور وہ بچوں کو بہتر اندازمیں تعلیم دے سکیں۔ اسکولوں میں سخت مانیٹرنگ نافذ کرنی چاہیے اور پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام ہونا چاہیے۔ انوار الحق صدیقی نے کہا کہ سب سے اہم بنیادی تعلیم کو بہتر بنانا ہے۔ سندھ میں 91 فیصد اسکول پرائمری ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ خطرہ بھی منڈلا رہا ہے کہ ہماری تعلیمی اسناد کو بیرون ملک تسلیم نہیں کیاجائے گا۔ پروفیسر محمد رفیع نے کہا کہ بنیادی تعلیم کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ بچوں کی کردار سازی تعلیم سے محبت پیدا کرنے کے لیے اسکول کے ماحول کو دلچسپ بنانا ہوگا تاکہ بچے کا اسکول میں دل لگے۔ آئی ٹی انقلاب نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔ آئی ٹی کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنانا ہوگا اور اس سے استفادہ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کو کم عمری سے ہی فنی تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ جدید علوم سے عملی طور پر آگاہ ہوں۔کموڈور انور سدید ملک نے مدارس کے بچوں کے پیچھے رہ جانے کے حوالے سے کہا کہ یکساں نظام تعلیم سے تمام بچوں کو ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا اور جو ملک میں بلا وجہ کے مذہبی، سماجی اور لسانی اختلافات ہیں، نئی نسل میں ان عصبیتوں کو کم کیا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کے فارغ التحصیل طالب علموں کے پاس زندگی میں کچھ کرنے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ یہ بڑی زیادتی کی بات ہے جس کا تدارک ہونا چاہیے۔ تعلیم میں نقل کو بالکل ختم کرنا ہوگا اور جو لوگ اس گھناونے فعل میں ملوث ہیں انہیں عبرتناک سزائیں دینا ہوں گی۔ کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا کہ تعلیم کو بہ طورکاروبار سمجھنے والے معاشرتی رویے کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اندرون سندھ تعلیم کی حالت بہت خراب ہے، ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں اور غیرحاضر اساتذہ ہر مہینے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں تعلیم کا بجٹ صرف 2 فیصد ہے۔ یہ ناکافی ہے اور اس کا بڑا حصہ تو اساتذہ کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ اجلاس سے ابن الحسن رضوی، عثمان دموہی، ڈاکٹر خالدہ غوث، ڈاکٹر امجد علی جعفری، بریگیڈیر ریاض الحق، ڈاکٹر تنویر خالد اورشمیم کاظمی نے بھی اظہار خیال کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں