کورونا وائرس کے باعث دنیا میں نظام زندگی مفلوج ہے: مولانا محمد عمران عطاری

سرگودھا (ایچ آراین ڈبلیو) اس وقت کورونا وائرس نے دنیا میں ہلچل مچادی ہے، نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے، جتنے لوگ زندہ ہیں ان لوگوں نے ایسی پریشانی دیکھی نہ ہو گی، ایسا وقت نہیں آیا کہ دنیا بھر میں وباءپھیلی ہوئی ہے اور لوگ ہار گئے، استغفارو اذان کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، اللہ کے نیک بندوں نے گناہوں پر رونے کا کہا ہے، گھروں میں نماز کا اہتمام ہو رہا ہے، توبہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے لیکن کئی چیزیں ہیں جن کی طرف ایسا لگتا ہے کہ توجہ نہیں ہے۔ انسانوں پرخشکی وتری میں جو بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ اسکے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے، برائی کا انجام برا ہی ہوتی ہے۔ ا±صول ہے کہ گرنے والی چیز نیچے ہی آتی ہے، کوئلہ پکڑنے سے ہاتھ سفید نہیں ہوتے، یہ یاد کرنے والی بات کہ نافرمانی کا نتیجہ برا ہی ہے، یہ بات دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری نے اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز کے بدلنے کی بہت ضرورت ہے وہ عادتیں ہیں جن سے معاشرہ برباد ہوتا ہے۔ نماز قضا کرنا بہت بڑی برائی ہے، اسکے اپنے اثرات ہیں۔ فرض روزہ قضا کرنا بہت بڑی برائی ہے، اسکے اپنے اثرات ہیں، ہر برائی کا اپنا اثر ہوتا ہے، برائی کا اثر انسان پر معاشرے پر ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں فحاشی ،بے حیائی عام ہوجائے وہاں وبائیں پھیل جاتی ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو اس بات کو نہیں سمجھ رہا، عریانی وفحاشی عام ہے، ہر اس شخص سے کہتا ہوں جسکے پاس برائی سے روکنے کی طاقت ہے، انہیں چاہئے کہ لوگوں تک فحاشی اور بے حیائی کی آگاہی کو عام کریں۔ جس قوم میں بدکاری ہوتی ہے اللہ عزوجل انہیں قحط سالی سے پکڑتا ہے، اسکی ایک صورتحال یہ بھی ہے کہ اناج ہوگا مگر کھانا نصیب نہیں ہو گا۔ ہم ان فرامین پرغور کریں جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائیں، ہم اپنی سوچ سے معاشرے کو درست کرنے چلے ہیں، معاشرہ اسی صورت درست ہو گا جب ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرینگے۔ انسانی سوچ کا کیا ہے آج کچھ اور کل کچھ اور ہوتی ہے، ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے، ہم چاہتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے، ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، بڑی بڑی عقلوں نے کورونا وائرس کے سامنے ہتھیار ڈال دئےے۔ ہمیں ان لوگوں سے رہنمائی لینی ہوگی جو دین کی معلومات رکھتے ہیں، ہمیں اپنے گناہوں کی عادت کو بدلنا ہوگا۔ گناہ اسلئے ہوتے ہیں کہ ان کی تحریک جاری رہتی ہے، وہ باتیں، وہ ویڈیوز، وہ مناظر وہ صحبت جن سے انسان گناہوں کی طرف مائل ہو ان سے روکنے کا ہم دیا گیا ہے، گھر کے بڑے، معاشرے کے بااختیار افراد انہیں روکیں، ہم نہیں بدلیں گے توحالات بھی نہیں بدلیں گے، ہم بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ دعائیں اور التجائیں کرنی ہیں، گناہ دعا کی قبولیت میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ کے بندے اللہ کا حکم مانیں، دعا عبادت ہے، اللہ عزوجل دعا قبول فرماتا ہے، دعا کی شرائط ہیں، نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک اس کی شرائط کا لحاظ نہ رکھا جائےگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خرابی کا بدلہ خرابی، برائی کا بدلہ برائی ہے، ایکشن کا ری ایکشن ہے، رشوت عام ہونے سے دشمنوں کا خوف طاری ہوجاتا ہے، رشوت لینے سے دشمنوں کی ہیبت طاری ہوجاتی ہے، اگر معیشت بہترکرنا ہے تو سود کو ترک کرنا ہو گا، اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، سود کےساتھ جو چیز جڑے گی مٹ جائےگی پھر وہ معیشت ہویا گھر، چھوٹا ہو یا بڑا کاروبار اس وقت ترقی کرکے جب اس میں سود نہ ہو، سود کےساتھ سارے منصوبہ ناکام ہیں، اپنی معاشی وگھریلو صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سود اور حرام چیزوں کا نکال دیں۔ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے، معیشت کا ایک نظام ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خرید وفروخت کے متعلق بتایا ہے کہ کس انداز میں خریدنا ہے اور فروخت کرنا ہے، آج مارکیٹ میں تجارت کرنےوالے تجارت کے احکام سے واقف نہیں ہیں، آج دنیا کے بنائے گئے تجارتی نظام پر بڑے پیمانے پر تعلیم حاصل کی جاتی ہے مگر اسلام کے نظام تجارت کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں مسلمان خوشحال تھے، ایک فلاحی ریاست قائم تھی۔ جب ماپ تول میں کمی ہوتی ہے تو روزی کاٹ کر دی جاتی ہے یعنی برکت ختم ہوجاتی ہے، ایسا پیسہ رکتا نہیں ضائع ہوجاتا ہے۔ ہمیں توبہ کرنی ہے، نماز کا اہتما م کرنا چاہئے، ان برائیوں سے بچنا ہے جس سے معاشرہ خراب ہوتا ہے۔ برائیوں سے روکنے والے جب برائیوں کو نہیں روک پاتے تو اللہ عزوجل ان پر بھی آفتیں آتی ہیں۔ آٹھ سو سال کی حکومت عیاشیوں کی وجہ سے ختم ہو گئی، تین برا عظموںمیں مسلمانوں کی حکومت تھی، شہر اور ملک چلے گئے۔ یہ وبائیں اور پریشانیاں برسوں سے چلی آرہی ہےں لیکن ہم ہیں کہ بدلتے نہیں ہیں، ہم نافرمانیاںکرکے اللہ ورسول کو ناراض کرتے ہیں، ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں، ان کے امتی ہیں، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہمیں شریعت دی ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں