گٹکے کے استعمال میں پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں سرِ فہرست

کراچی(ایچ آر این ڈلبیو) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق منہ کے کینسر کا سبب بننے والے گٹکے کے استعمال میں پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں سرِ فہرست ہے اس کا زیادہ استعمال صوبہ سندھ میں ہوتا ہے اور کراچی میں اس کی بے پناہ کھپت ہے، اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں میں گٹکے کی 60 سے زائد فیکٹریاں ہیں اور اس کی بیرون ملک سے سمگلنگ بھی حکومت کی تمام تر پابندیوں کے باوجود جاری ہے، گٹکے کی فروخت کو روکنے کے لیے سندھ اسمبلی نے پچھلے سال قانون سازی مکمل کر لی تھی اور رواں سال جنوری میں اسے باقاعدہ ’ایکٹ‘ کے طور پر نافذ کرلیا گیا، جس میں گٹکے کے کاروبار میں ملوث تمام افراد کو مجرم قرار دیا گیا ہے، سندھ اسمبلی سے منظور شدہ قانون کے تحت گٹکے کی فروخت اور استعمال میں ملوث افراد کو تین سال قید اور دو لاکھ روپے سے زائد جرمانے کے سزا ہو سکتی ہے، لیکن اس قانون کے پاس ہونے کے بعد کچھ عرصہ سرکاری سطح پر سختی ہوئی اور پھر گٹکے کی تجارت دوبارہ نئے طریقوں سے زور و شور سے شروع ہوگئی، اب گٹکا  بیچنے والوں اور خریدنے والوں نے قانون کی نظر سے بچنے کے لیے ایک نیا ’میکینزم‘ بنا لیا ہے، کسٹمز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے مطابق رواں سال کراچی کے علاقوں کھارادر اور ایم اے جناح روڈ کے علاقوں سے پکڑی جانے والی گٹکے اور تمباکو کی کھیپ پڑوسی ملک انڈیا سے سمگل کی گئی جس کی مالیت کروڑوں میں تھی،گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ میں گٹکے کی غیر قانونی فروخت کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ 5 سالوں کے دوران سندھ کے جناح ہسپتال میں منہ کے کینسر کے 10 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، عدالت نے اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص سندھ رینجرز کو گٹکے کی خرید و فروخت روکنے کے لیے اقدامات کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، عدالتی فیصلے میں پولیس کے بجائے رینجرز کو عملدرآمد کے احکامات جاری کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مدعی ایڈوکیٹ نے پٹیشن میں مؤقف اپنایا تھا کہ گٹکا بنانے میں استعمال ہونے والی مختلف اشیاء پڑوسی ملک سے سمگل ہوتی ہیں اور اس جرم میں پولیس اور پاکستان کوسٹ گارڈ برابر کے شریک ہیں۔
ان کا الزام تھا کہ پولیس چھاپوں میں پکڑی جانے والی چھالیہ اور گٹکا بعد میں خود فروخت کرتی ہے۔ عدالت میں ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مدعی نے بتایا کہ ’موچکو پولیس نے کارروائی میں 17 ہزار ٹن چھالیہ قبضے میں لی تھی مگر صرف 6 ہزار ٹن کی ضبطگی ظاہر کی جبکہ باقی ماندہ مقدار کا کوئی اتا پتا نہیں، رواں سال مارچ میں ایک ویڈیو  وائرل ہوئی تھی جس میں کراچی کے اتحاد ٹاؤن کے ایک دوکاندار نے پولیس کے اہلکار پہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے گٹکا فروخت کرنے کے جھوٹے الزام میں اسے گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں ایک لاکھ روپے رشوت کے عوض اس کی رہائی ممکن ہوئی تھی، علاقہ ایس پی نے وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی۔ سندھ پولیس کا دعوٰی ہے کہ ہر ماہ تقریباً ایک ٹن گٹکا مارکیٹ سے قبضے میں لیا جاتا ہے۔ تاہم دوسری طرف بہت سے پولیس اہلکار خود گٹکا کھانے کے عادی ہیں، سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے محکمانہ طور پر اس کی روک تھام کے لیے پالیسی مرتب کرنے کا عندیہ دیا ہے، کراچی پولیس چیف کے دفتر کی جانب سے جاری احکامات میں پولیس اہلکاروں کو دوران ڈیوٹی کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے، مگر پولیس افسران نے تسلیم کیا ہے کہ ان احکامات پہ من و عن عملدرآمد نہیں ہوتا، کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پان کا کھوکھا لگانے والے نے بتایا کہ کچھ ماہ پہلے گٹکے کی فروخت پر بہت سختی ہوگئی تھی اور کچھ عرصے تک تو گٹکے کی فروخت تقریبا روکنی ہی پڑی لیکن پھر کچھ نرمی ہوئی اور کیبن والوں نے گٹکا بیچنے کے کچھ اصول مرتب کرلیے۔
کسی انجان شخص کو گٹکا نہیں بیچتے، صرف اسی کو بیچتے ہیں جو ان کے پرانے گاہک ہیں، کوئی انجان راہگیر آجائے تو انکار کر دیتے ہیں کہ مال نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ پکے گاہکوں کو گٹکا بیچنے کا ٹائم مقرر ہے، انہیں اندازہ ہے کہ کتنے گاہک ہیں سو وہ ان کے حساب سے مال تیار رکھتے ہیں اور عموماً شام کے اوقات میں وہ لوگ زیادہ تعداد میں گٹکا لے جاتے ہیں۔ دن بھر اس کی فروخت نہیں ہوتی، اس کے علاوہ ایک اور طریقہ جو گٹکے کی فروخت میں دیکھنے میں آیا وہ تھا پیکنگ کی تبدیلی، عموماً گٹکا چوکور پیکٹ میں ملتا ہے جس پر ربر بینڈ بندھا ہوتا ہے تاہم چھاپوں سے بچنے کے لیے بیشتر دکانداروں نے اسے پان جیسی تکون پیکنگ میں بیچنا شروع کردیا ہے جیسے وہ پان بیچ رہے ہوں، ماہر صحت کے مطابق گٹکا میں مضرِ صحت عناصر شامل ہوتے ہیں جو محض چند ہفتوں میں صحت مند خلیوں کو کینسر زدہ کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گٹکے کا زیادہ استعمال منہ کے کینسر کی بڑی وجہ ہے، گٹکا بنانے میں چھالیہ، چونا، کھتا، مخصوص مصالحے اور مصنوعی ذائقے کی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں اور لوگ اسے نشے کے علاؤہ منہ کا ذائقہ بہتر کرنے اور سگریٹ یا چائے کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں، گٹکا کھانے کا عمومی طریقہ یہی ہے کہ لوگ اسے بہت دیر تک منہ میں رکھتے ہیں اور لعاب کی آمیزش سے بننے والا اس کا عرق چوستے ہیں، اس کے مستقل استعمال سے گٹکے کا اثر سب سے پہلے منہ میں ہی ہوتا ہے اور خون کی نسیں بتدریج سکڑنے لگتی ہیں، وقت کے ساتھ یہ مضرِ صحت مادہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور منہ کھولنے میں بھی دقت ہونے لگتی ہے، جنوبی ایشیاء میں موجود کینسر کے مریضوں میں سے 35 فیصد منہ کے کینسر کا شکار ہیں جبکہ 18 فیصد مریض میں اسکی بنیادی وجہ چھالیہ کا استعمال ہے، ماہر کینسر کہتے ہیں کہ لوگوں میں بے حسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جس مریض کو منہ کا کینسر ہو جائے اس کے رشتہ دار تک اس سے سبق حاصل نہیں کرتے، لوگوں کے گھروں میں اموات ہو جاتی ہیں، پھر بھی دوسرے افراد گٹکے کا استعمال نہیں چھوڑتے، حال تو یہ کہ جس مریض کی سرجری کریں اس کا اٹینڈنٹ منہ میں گٹکا چبائے اس کی خیریت دریافت کرنے آتا ہے، گٹکے کا استعمال جنوبی پنجاب تک میں ہوتا ہے، اس سے اوپر کے علاقوں میں تمباکو اور حقے کا استعمال شروع ہوجاتا ہے، اور خیبر پختونخوا میں لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں، جو اتنی ہی خطرناک ہے جتنا گٹکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں