ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کا کھیل بند ہونا چاہئے،فوادچوہدری

لاہور(ایچ آراین ڈبلیو)وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو-ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کا کھیل بند ہونا چاہئے-اٹارنی جنرل کا موقف ہے کہ ایم این اے کا ووٹ پارٹی کا ووٹ ہے-وزیراعظم کے انتخاب یا تحریک عدم اعتماد سمیت فنانس بل پر ووٹ پارٹی کا اجتماعی ووٹ ہے جو پارلیمانی لیڈر کے ذریعے استعمال ہوتا ہے-اسی نکتہ پر سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے دلائل جاری ہیں-اگر اس ووٹ پر پابندی نہ ہوتی توپھر آرٹیکل 63 اے لانے کا فائدہ ہی نہیں تھا-پاکستان کا مستقبل اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ عدلیہ ہارس ٹریڈنگ پر کارروائی کرے-اٹارنی جنرل نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیا، اس کیس میں سپریم کورٹ نے ساری بات وضاحت سے بیان کی ہے-ہارس ٹریڈنگ میں ملوث لوگ اپنا ووٹ استعمال کر سکیں گے یا نہیں اس بارے میں فیصلہ سپیکر کریں گے-تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے-یہ کیس پاکستان کی سیاست کے مستقبل کی بنیاد ہے-عدالت میں سندھ ہائوس کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی، پولیس نے سندھ ہائوس پر جو ایکشن لیا، عدالت اس پر مطمئن ہے اور اس معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے-سندھ ہائوس میں جو بدبودار کھیل کھیلا گیا ہے اس کا مداوا نہیں ہوا-سندھ ہائوس میں خچر ٹریڈنگ، گھوڑا ٹریڈنگ اور گدھا ٹریڈنگ کی منڈی لگی ہوئی-سندھ ہائوس کے اندر جس طرح سے ضمیر فروشی ہوئی اسے روکنا ضروری ہے-پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے سندھ ہائوس کے باہر احتجاج کیا، پولیس نے اس پر کارروائی کی، یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے-یوسف رضا گیلانی کے لئے ووٹ خریدنے کی ویڈیوز الیکشن کمیشن بھیجی گئیں لیکن اس پر کارروائی نہیں ہوئی-اگر اس وقت کارروائی ہوتی تو آج لوگ خریدنے اور بیچنے کا دھندا بند ہو جاتا اور ہمیں ہارس ٹریڈنگ کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑتا-عدلیہ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن سے کہا گیا تھا کہ ووٹ کی ٹریس ایبلٹی کو یقینی بنایا جائے-اگر کوئی بندہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ دیتا ہے اور اس پر ووٹ بیچنے کا الزام لگتا ہے تو اس کا ووٹ ٹریس کیا جا سکے-الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے آج اس بحران کا سامنا ہے-ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے سپریم کورٹ کا یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے-سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان میں ایک نئی سیاست کی بنیاد رکھی جائے گی-ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سپیکر کریں گے جبکہ نااہلی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے-اگر کوئی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر منتخب ہو اور اسے پارٹی پالیسی سے اختلاف ہو تو وہ مستعفی ہو کر اپنے لوگوں کے پاس جائے، دوبارہ عوام کا ووٹ لے کر منتخب ہو کر آئے-ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کے نام پر یا کسی پارٹی کے منشور پر الیکشن جیت کر آئے اور پھر اسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے-مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کابینہ کا حصہ ہیں، دو دو وزارتیں ان کے پاس ہیں، جب تک اتحادی کابینہ میں ہیں تو ظاہر ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں۔آرٹیکل 63 اے تاحیات نااہلی سے متعلق ہے، اس بارے میں فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے-سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس سے پہلے فیصلہ دے چکا ہے کہ اگر نااہلی کی مدت آئین میں درج نہیں ہے تو وہ تاحیات ہے-یہ فیصلہ آرٹیکل 63 پر ہے، آرٹیکل 63 اے پر نہیں تھا، ہم تشریح کے لئے آئے ہیں کہ آرٹیکل 63 کا فیصلہ 63 اے پر بھی لاگو ہوگا یا نہیں۔پی ٹی آئی مڈل کلاس پارٹی ہے، ہماری کوئی ڈنڈا بردار فورس نہیں، ہم جے یو آئی جیسی جماعت اور سپریم کورٹ پر حملے کرنے والی پارٹیاں نہیں-پی ٹی آئی میں پڑھا لکھا نوجوان شامل ہے، ہم اپنی اخلاقیات سے جڑے رہیں گے-

اپنا تبصرہ بھیجیں