سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال افسوسناک ہے، انسانی حقوق کمیشن

کراچی (ایچ آر این ڈبلیو) ہیومن رائٹس کمیشن آّف پاکستان نے صوبہ سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال کو افسوسناک قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ چیپٹر کے وائس چئیرپرسن قاضی خضر حبیب، کونسل ممبرز پروین سومرو، سلیم جروار، سعید بلوچ ، ریجنل کوآرڈینیٹرامداد چانڈیو اور دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سال 2020 کے دوران سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال گمبھیر رہی۔ پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں ہے۔ سندھ میں 3560 اموات ہوئیں۔ وبا کے باعث ایسے حالت پیدا ہوئے جس میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے۔
سندھ اسمبلی میں کووڈ ریلیف آرڈیننس کی منظوری کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ کسی کو روزگار اور تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ کرایہ داروں کے مسائل پرتوجہ دی جائے گی تاہم اس آرڈیننس پر عمل نہیں کیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ گزشتہ برس 127 افراد لاپتہ ہوئے۔ جن میں قوم پرست افراد، طالب علم اور انسانی حقوق کے علمبردار افراد شامل ہیں۔ لاپتہ افرا دمیں سے 15لوگ ابھی تک واپس نہیں آئے۔
عہدیداروں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے مزید بتایا کہ ساحل جویو کو جبری گھر سے اٹھاٰلیا گیا جوسول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد 17 اگست کو بازیاب ہوا۔ اسی طرح عاقب چانڈیو کو دو بار اٹھایا گیا تاحال اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس ہی جسقم آریسر اور ایم کیو ایم کے کارکن کو غائب کیا گیا جن کی نعشیں ملیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ جبکہ تمام اسمبلیوں کی طرح بلدیاتی حکومتوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پھانسی کی صورتحال پر ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ ایک سو اکیس افراد کو موت کی سزا دی گئ ۔پھانسی کی سزا نہیں دی گئی اس وقت 583افراد پھانسی کی سزا کے منتظر ہیں۔
عہدیداروں نے کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ کو جبری طور پر ان کے دفتر سے لے جایا گیا۔ آزادی اظہار اور جماعت بنانے کا آزادی کی خلاف ورزی کی گئی۔ جسقم آریسر پر پابندی لگائی گئی۔
عہدیداروں نے نشاندہی کی کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے جبری اغوا، جبری مذہب کی تبدیلی اور شادی کے کیسز بھی سامنے آئے۔۔
تعلیم کی ابترصورتحال پر ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ کہ سندھ میں گزشتہ برس بھی پینتیس لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم رہے۔۔ اکتیس فیصد بچے اسکول جاتے ہیں مگر 79 فیصد بچے اسکول کیوں نہیں جاتے اس کا سندھ حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ غیر سرکاری اداروں کے مطابق غیرت کے نام پر متاثرہ افراد میں سے 197 افراد قتل ہوئے جن میں 79 مرد اور 136 خواتین شامل ہیں۔ اسی طرح اغوا کے 3226 واقعات رپورٹ ہوئے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ صوبے میں خودکشی کے واقعات کم ہیں۔ جیلوں میں آج بھی گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں جن کا پرسان حال نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں