آئی جی سندھ معاملہ سیاسی نہ بنایا جائے، حلیم عادل شیخ کا مراد علی شاہ کو خط

کراچی(ایچ آراین ڈبلیو) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر و سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی خط لکھ دیا، خط میں حلیم عادل شیخ نے تحریر کرتے ہوئے کہا کہ میں بیحیثیت پی ٹی آئی مرکزی نائب صدر و پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی آپ کو لکھ رہا ہوں میرا تعلق سندھ میں اپوزیشن جماعت سے ہے جو اس وقت 42 فیصد ہیں۔ آپ نے وزیر اعظم پاکستان کو آئی جی سندھ کے تبادلے کے سلسلے میں تین خطوط لکھیں ہیں جس میں شکوہ کیا ہے کہ آپ نے وعدہ خلافی کی ہے آپ کے سارے الزامات غلط ہیں ایک ورکر اور پی ٹی آئی کا نائب صدر ہونے کے ناتے آپ کے وزیر اعظم کے فیصلےپر دیئے گئے بیان کی درستگی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک اپوزیشن جماعت کے نمائندے اور عوام کے منتخب پارلیامینٹرین کے حیثیت سے بھی آپ کے لگائے غلط الزامات کا جواب دینے کا حق رکھتا ہوں۔ آئی جی سندھ مقرری کے سارے معاملے کو سیاسی بنانے پر سخت مزمت بھی کرتا ہوں۔آپ نے عوام سے سیاسی ہمدردی لینے کے لئے عوام کو غلط بیانی کر کے گمراہ کیا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے بتاتا چلوں کہ آئی جی سندھ کے تبادلے کے لئے سندھ حکومت وفاق سے مکمل مشاورت کے بعد ہی ہٹا سکتی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق آپ نے وفاق سے مشاورت شروع کی تو ان کا بھی مثبت جواب آیا جو 1993 کے وفاق اور صوبوں کے معاہدے کے مطابق تھا۔ جس طرح آپ نے سندھ کیبینٹ سے مشاورت کے بعد آئی جی سندھ کے تبادلے کا فیصلا کیا ہے اس طرح وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی آئی جی سندھ کی مقرری کے لئے معاملہ وفاقی کیبینٹ میں پیش کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہے حکم کر چکا ہے کہ حکومت صرف چیف ایگزیکیوٹو پر نہیں پوری کیبینٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔وفاقی کیبینٹ کی 28 جنوری 2020 کی میٹنگ میں میری اطلاعات کے مطابق آئی جی سندھ کے تبادلے کا معاملہ ایجنڈا نمبر 1 پر رکھا گیا تھا جس میں فیصلا کیا گیا کہ آئی جی سندھ کے تبادلے کے لئے مزید گورنر سندھ سے مشاورت کی جائے جو وفاق کا مقرر کردہ نمائندہ ہے لیکن آپ نے آئی جی سندھ کے تبادلے کے حوالے سے گورنر سے مزید بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اور سیاسی طور پر الزامات لگانا شروع کئے، جس کے بعد دوبارہ ایک خط ویر اعظم پاکستان کو لکھا جس میں مشیر برائے انفارمیشن فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس پر اعتراضات کئے جبکہ فردوس عاشق اعوان نے سیدھے طرح وفاقی کیبینٹ کے فیصلے کو میڈیا میں آکر بیان کیا تھا جبکہ آپ کے صوبائی وزیر انفارمیشن نے بھی میڈیا میں آکر ایک گھنٹے کی طویل پریس کانفرنس کرکے آئی جی سندھ پر بے بنیاد الزامات لگائے اور چارج شیت پیش کی تھی۔ آپ نے ہمیشہ کی طرح سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے اپنے ہی پولیس کے محکمے کے خلاف اعلان جنگ کا اعلان کیا ہے اور آئی جی کے تبادلے کو ایک سیاسی اشو بنایا ہے آپ نے آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دی ہیں۔ یہ دھمکیاں ایک پولیس چیف کے لئے بہتر نہیں ہیں نہ ہی کسی صوبے کے چیف ایگزیکیوٹو شہبہ نہیں دیتا۔ اگر سندھ حکومت مقرر کردہ طریقہ کار پر عمل کرتی تو یہ معاملے اتنا زیادہ نہیں ہوتا جبکہ میرے مطابق آئی جی سندھ کی مقرری کا میعاد تین سال کے لئے ہوتا ہے پولیس ایکٹ 2002، امینڈیٹ ایکٹ 2019 کے شک نمبر ایس 12 (1) جو پولیس ایکٹ 1861 میں بھی ہے کہ آئی جی کو تین سال کے مقرر کیا جاتا ہے جبکہ موجودہ آئی جی سندھ نے 15 ستمبر 2018 کو چارج لی تھی جو 14 ستمبر 2021 تک آئی جی کے عہدے پر مقرر کئے گئے ہیں۔ اس قانون کے مطابق اگر آئی جی سندھ کو تبدیل کیا جاتا ہے تو صوبائی حکومت کوئی خاص وجوہات وفاق کو پیش کرے گی جس کی بنیادی پر آئی جی سندھ کا تبالہ کیا جائے گا اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی پیرا نمبر 67 اے ڈٰی خواجہ آئی جی سندھ کے مقرر وقت سے پہلے تبادلے پر خاص وجوہات مانگی تھی فیصلے میں کہا گیا کہ آئی جی کے تبادلے کے صوبائی حکومت کیبینٹ وفاقی کیبینٹ

اپنا تبصرہ بھیجیں