کراچی میں ڈکیت راج

کراچی میں اگر زمینی حقائق کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو درحقیقت اس وقت شہر کی گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر صرف ڈکیتوں کا راج ہے، جو بلاکسی خوف و تردد روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں وارداتیں کر رہے ہیں اور کراچی کے شہری محض لٹ رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اگر وہ مزاحمت کرتے ہیں تو جان سے جاتے ہیں،

عید کے دوسرے روز اسی طرح کا واقعہ گلشن چورنگی پر ایک شہری تراب زیدی کے ساتھ پیش آیا جو اپنے گھر والوں کو عیدی دینے کی غرض سے اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر جیسے ہی باہر آیا اسے تین ڈکیتوں نے گھیر لیا، اس نے معمولی مزاحمت ہی کی تھی کہ بے رحم ڈکیتوں نے اسے پے درپے کئی فائر کر کے قتل کر دیا اور یوں ایک جواں سالہ شخص اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنا کر اس دارفانی سے کوچ کر گیا-

سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے اس واقعہ کا نوٹس ایسا لیا کہ انہوں نے عوامی پارہ کا گراف نیچے لانے کے لئے متعلقہ تھانہ ایس ایچ او کو فوری معطل کرنے کا اعلان کیا،

یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جنہوں نے کچھ روز قبل بیان دیا تھا کہ کراچی میں جرائم کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور کراچی کے شہریوں کو اب جرائم کو بھی ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لینا چاہیے،

ان کا بیان واقعی کسی اقبالی حقیقت سے کم نہیں، اس میں انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ اہل کراچی اپنا بندوبست خود کر لیں، کراچی پولیس تو صرف اہل اقتدار کی حفاظت کے لئے ہے، اس لئے عوام کا اس پر توقعات رکھنا بے سود ہے-

وزیرداخلہ کے اس بیان کے بعد ہی سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی نے کراچی میں صرف تین ماہ کی کرائم رپورٹ پیش کرکے انہیں آئینہ دکھا دیا لیکن شرم و احساس ذمہ داری تو تہذیب یافتہ معاشروں کی زینت ہوتا ہے ہمارا اس سے کیا واسطہ؟

سی پی ایل سی نے رواں سال کے پہلے 3 ماہ کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 91 دنوں میں 22 ہزار 627 بڑی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ 3ماہ کےدوران ڈکیتی مزاحمت پر 59 شہری جان سےگئے اور مارچ کے اختتام تک ڈکیتی مزاحمت پر 7 سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹ نے کہا کہ 3 ماہ میں373 کاریں، 15ہزار968 موٹرسائیکلیں چوری یا چھینی گئی جبکہ 91دنوں میں 6 ہزار 102 شہریوں سےموبائل فون چھینے گئے۔

سی پی ایل سی کے مطابق اغوا برائے تاوان کے 5 ،بھتہ خوری کے 25 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ مجموعی طور پر مختلف واقعات میں 154 شہری قتل ہوئے۔

جنوری میں 7 ہزار 865 فروری میں 7 ہزار 364 وارداتیں ہوئیں جبکہ مارچ کے مہینے میں 7 ہزار 539 وارداتیں رپورٹ کی گئی۔

سی پی ایل سی نے اپنی رپورٹ دراصل کرائم رپورٹ رجسٹر کے اعداد و شمار کے مطابق بنائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں ہونے والے آدھے سے زیادہ جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے خاص کر موبائل اور نقدی سے ہاتھ دھونے والے افراد پولیس میں جا کر رپورٹ درج کرانا اپنا مزید وقت برباد کرنا سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پولیس کے پاس ان کی داد رسی کا ممکن نہیں، زیادہ سے زیادہ وہ یہ کرتے ہیں کہ چھینے گئے موبائل میں موجود اپنی سموں کو بند کرادیتے ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال کی صورت میں وہ کسی اور مصیبت سے خود کو محفوظ رکھ سکیں-

سی پی ایل سی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کراچی کے ڈسٹرکٹ ایسٹ کی جانب سے بھی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے دعوٰی کیا ہے کہ

ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر مہیسر کی بہترین حکمت عملی پچھلے سال کے مقابلے میں %60 فیصد جرائم پر قابو پالیا گیا ۔۔۔
سی۔پی۔ایل۔سی (CPLC) نے ایسٹ زون میں ہونے والے جرائم کے اعدادوشمار جاری کردئیے اعدادوشمار میں روا سال مارچ تک کا ڈیٹا شامل کیا گیا۔

جبکہ اسی اعدادوشمار کے ساتھ پچھلے سال یعنی 2023 کے مارچ تک کا ڈیٹا بھی جاری کیا گیا ۔

2023کے مقابلے میں 2024 کا کرائم ریٹ %60 فیصد کم رہا ۔ 2023کے پہلے 3ماہ میں 876 شہری موبائیل فون سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 2024 میں 362 موبائل چھینے گئے جن میں سے %50 ریکور ہوچکے ہیں باقی ٹریسنگ پر ہیں ۔

2023 کے مارچ میں 1482موٹرسائیکل چوری ہوئی جبکہ 2024 میں 937 موٹر سائیکل مالکان کا نقصان ہوا ، 2023 میں چوری ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 50 تھی جبکہ 2024 میں 39 ہیں

مجموعی طور پر ایسٹ زون (جس میں ملیر ،کورنگی اور ڈسٹرکٹ ایسٹ شامل ہیں) میں 2023 میں 2608 جرائم رکارڈ کئے گئے تھے جبکہ 2024 میں 1560 جرائم شمار کئے گئے-

ادھر کراچی پولیس بھی روزانہ کی بنیاد پر پولیس مقابلے کرکے ان اسٹریٹ کرمنلز کو ہلاک و زخمی بھی کر رہی ہے اور ان کی گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں، کراچی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے رواں سال میں 425 مقابلوں میں‌55 ڈاکو جہنم رسید کئے ہیں-

اس سے قبل سابق آئی جی سندھ رفعت مختار نے کراچی کے جرائم کی وجوہات پر ایک خاص بات یہ کی تھی کہ ان جرائم کے پیچھے زیادہ تر ایسے ملزمان کا ہاتھ ہوتا ہے جو گرفتار ہونے کے باوجود بھی جلد ہی ضمانت پا کر باہر آ جاتے ہیں اور پھر سے وارداتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں-

رفعت مختار صاحب کی یہ بات واقعی اپنی جگہ ایک ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس بات تائید ان اعداد و شمار کی بنیاد پر آسانی سے کی جا سکتی ہے کہ 2020 سے 2023 یعنی 36 ماہ میں کراچی میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد ایف آئی آرز درج ہوئیں ایک لاکھ سے اوپر ملزمان گرفتار بھی ہوئے اور “اللہ کے فضل و کرم” اور “کراچی پولیس کی بہترین” انوسٹیگیشن کی بدولت صرف 350 کے آس پاس ملزمان کو سزائیں ہوئیں باقی سب با عزت بری ہوئے یا ضمانت پر رہا ہیں

اب ڈیڑھ لاکھ جرائم ایک لاکھ سے زائد گرفتاریاں اور صرف 350 کے لگ بھگ سزائیں اگر کہ عدلیہ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں تو پھر سندھ پولیس کو اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا کیونکہ ذاتی مفادات کی آڑ میں مضبوط تحقیقات کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی،

اگر کہ سندھ پولیس کی فرض شناسی کی بنا پر ایف آئی آرز کے ملزمان کٹھرے تک پہنچ کر بھی بیگناہ ہیں تو نظام عدلیہ پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہونا فطری امر ہے،

کراچی میں اس طرح کے بڑھتے جرائم کی بیخ کنی کے لئے پولیس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی ان ایف آئی آرز پر فیصلہ دیتے وقت بہت زیادہ غور و تدبر کے ساتھ معاملہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ان کی جانب سے معمولی شک و شبہ پر کسی ملزم کو رہا کردینا اور پھر اس ملزم کا دوبارہ واردات کر کے شہریوں کو ان کے مال و متاع اور اکثر جان سے ماردینے کے جرم میں کیا وہ بھی شریک جرم تو نہیں ہو رہے،

زیریں عدلیہ کو ان حالات میں اپنے اس اصول پربھی نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا دینے سے 100 گناہ گاروں کو چھوڑ دینا بہتر ہے-

یہ مشہور و معروف نظیر زیریں عدلیہ کے متعدد فیصلوں میں پڑھا جا سکتا ہے لیکن بات صرف اتنی ہے کہ منصب انصاف کی کرسی پر براجمان شخص کے اند راتنی صلاحیت بھی نہ ہو کہ وہ گناہ گار اور معصوم کو اپنے انصاف کی کسوٹی پر موثر انداز میں پرکھ کرفیصلہ کر سکے تو اسے اس منصب پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں-

عدلیہ کی کارکردگی پر لاہور کے سابق سی سی پی اومحمد عمر شیخ نے ایک انٹرویو کے دوران جو ریمارکس دئیے وہ کارکردگی میں 139 نمبر پر آنے والی عدلیہ کے لئے انتہائی شرم ناک قرار دئیے جا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے چوک میں یونیفارم میں ٹریفک پولیس کے آفسر پر ایک سیاستدان نے گاڑی چلا کر اسے مار دیا لیکن عدلیہ نے اسے بری کر دیا ” ریاست اسی دن مر گئی تھی” مجھ پر توہین عدالت نہ لگ جائے لیکن کسی کو برا لگتا ہے تو بھلے لگ جائے-

تحریر: ندیم احمد جمال ایڈوکیٹ