شیخ رشید نےپیپلز پارٹی پرجوالزام لگایا ہےمعززججز کواس کا نوتس لینا چاہیے

کراچی(ایچ آراین ڈبلیو)وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی اور وفاقی قیادت کی جانب سے ان زمینوں کے خلاف کارروائی جو کہ قانون کے مطابق کی گئی ہے، اس کو سیاسی رنگ دینے کے تاثر کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ان کے اس تاثر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمانداری کا راگ الاپنے والی سلیکٹیڈ اور سیاسی جماعت کے طور پر کرپٹ جماعت ان ناجائز کاموں میں پیش پیش ہے۔ ڈسٹرکٹ ملیر میں ہزاروں ایکڑ زمین جو کہ 30 سالہ لیز پر دی گئی ہے، ان کی معیاد مکمل ہونے یا ان کو جن مقاصد کے لئے دیا گیا ہو اس کے برعکس کوئی کام ہورہا ہو تو اس کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات پر کی جارہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ 2019 سے اپنٹی کرپشن نے اس طرح کی زمینوں کے خلاف اے سی سی ون میں 64 کیسز کو رونیو بورڈمیں بھیجا اور اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ جن فارم ہاؤس پر اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ شور مچا رہے ہیں ہمارے ریکارڈ کے مطابق یہ زمین نہ ان کو الاٹ ہوئی ہے اور نہ ہی اس میں ان کا کہی نام ہے۔ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے شروع ہوتے ہی وفاقی مشیر اور ان کے نالائق اور نااہل وزراء اور ترجمان گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ سینیٹ کے الیکشن میں خود اپنے ارکان کی جانب سے ووٹ نہ دینے کا خوف پی ٹی آئی کے سر پر منڈلا رہا ہے اور اسی لیے وہ خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن رائے شماری کے لئے تمام غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز اپنے کیمپ آفس میں صوبائی وزیر اینٹی کرپشن جام اکرام اللہ دھاڑیجو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ 30 سالہ زمین پولٹری فارم اور زراعت کے مقصد سے لیز کی جاتی ہے اور اس پر فارم ہاؤسز، ہاؤسنگ اسکیم یا گھروں کی تعمیر غیر قانونی ہے اور بورڈ آف رونیو کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ان زمینوں کی لیز کی معیاد ہونے کے باوجود ان پر غیر قانونی کام کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے نااہل اور اسکول سے باہر والے سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈز یہ بتائیں کہ ان زمینوں پر ان کے فارم ہاؤسز کس طرح قانونی تھے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ کارروائی صرف ان دو فارم ہاؤسز کے خلاف کی گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ملیر کے دو دیہہ میں ہزاروں ایکڑ ایسی زمینوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، جہاں یا تو 30 سالہ لیز ختم ہوگئی ہے یا پھران زمینوں کو جن مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا ہے اس کے برخلاف وہاں کوئی کام کیا جارہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات ان زمینوں کے خلاف ایکشن کے لئے ہیں اور خود چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام ڈسٹرکٹ کے ڈی سیز کو بلا کر یہ ہدایات دی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ تاثر دینا کہ یہ کوئی سیاسی انتقامی کارروائی ہے وہ بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ جن جن مقامات پر کارروائی ہوئی ہے وہ زمین حلیم عادل شیخ یا کسی پی ٹی آئی کے رہنماء کے نام پر ہمارے ریکارڈ میں ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کی دعویدار اور لاہور میں اس طرح کی کارروائیوں پر خود وزیر اعظم کی جانب سے وہاں کے وزیر اعلیٰ سندھ کو مبارکباد دینے والے آج قانونی کارروائی کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے کرمتنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملیر کے ڈی سی نے خود سپریم کورٹ کی جانب سے ڈسٹرکٹ ملیر میں سرکاری زمینوں کے خلاف کارروائی پر جواب جمع کروایا تھا کہ جولائی 2020 سے جنوری 2021 تک ملیر ڈسٹرکٹ میں 1200 ایکڑ سرکاری زمین واہگزار کروائی گئی ہے، اس لئے یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ یہ کارروائی ہم حلیم عادل شیخ کے اپوزیشن لیڈر بننے کے خلاف کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی 30 سالہ لیز کی زمین پر ہاؤسنگ اسکیم اور دیگر غیر قانونی کام کرکے کراچی کے عوام سے کروڑوں روپے بٹورنے والوں کے خلاف ہماری کارروائیاں جاری رہیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے حلیم عادل کے خلاف 400 ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کے خلاف انکوائیری کی تو نیب کی جانب سے اینٹی کرپشن سے تمام تحقیقات کی رپورٹ طلب کی گئی ہے، اب ہمیں نہیں معلوم کہ نیب اس کے خلاف کارروائی کرتا ہے یا اس پر پردہ ڈالتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حلیم عادل شیخ بتائیں کہ ملک کا کون سا قانون انہیں 30 سالہ زرعی زمین پر فارم ہاؤس بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کام 2002 سے غلط ہوا ہے تو کیا پوری زندگی اس کام کو غلط ہونے دیا جائے، یہ کون سے قانون میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی غیر قانونی کاموں کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن اور رونیو بورڈ مسلسل کارروائیاں کرتا ہے اور اس پر کئی لوگوں نے عدالتوں سے اسٹے لئے ہوئے ہیں لیکن اب سپریم کورٹ کی جانب سے ماتحت عدالتوں کی جانب سے اس طرح کے تمام اسٹے آرڈرز کو منسوخ کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں صرف ملیر یا کراچی نہیں بلکہ صوبے بھر میں سرکاری زمینوں پر قبضوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر اینٹی کرپشن جام اکرام اللہ دھاڑیجو نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے 64 کیسز کی انکوائری کی اور اس کی رپورٹ چیف سیکرٹری کو دی اور چیف سیکرٹری کی ہدایات پر رونیو بورڈ نے ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 64 کیسز اے سی سی ون کے اجلاس میں رکھے گئے تھے اور اس کے بعد ان پر کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے اور اس میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین کو واہگزار کروایا جائے گا۔ حلیم عادل شیخ کی جانب سے اسٹے آرڈر کے باوجود کارروائی کو غیر قانونی قرار دینے کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اگر ان کے پاس اسٹے آرڈر ہے تو ضرور عدلیہ سے رجوع کریں کیونکہ سپریم کورٹ نے تمام ماتحت کی جانب سے دئیے جانے والے اسٹے آرڈر کو منسوخ کردیا ہے، اس کے بعد ہی یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ آصف علی زرداری کی ضمانت پر شیخ رشید کے بیان کے سوال پر انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے یہ الزام پیپلز پارٹی یا صدر آصف علی زرداری پر لگایا ہے اور معزز ججز کو اس کا نوتس لینا چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس دن 26 مارچ سے لانگ مارچ کا آغاز ہوگا، اسی دن سے یہ تمام وزراء اور ترجمان جو آج پی ڈی ایم کے خلاف اپنا راگ الاپ رہے ہیں اپنے گھروں کو بھی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور یہ لانگ مارچ جس طرح پی ڈی ایم چاہے گی، اسی طرح ہوگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ جو پارٹی سیاسی طور پر کرپٹ سیاسی جماعت ہو اور اس کے اپنے انٹرنل انتخابات کے لئے بنائی گئی اپنے کمیٹیوں نے عہدوں کی بند باٹ کے لئے ہاؤس ٹریڈنگ ہونے کے شواہد دے دئیے ہو، ایسی پارٹی شفاف انتخابات کی بات کررہی ہے تو یہ مذاق نہیں ہے تو کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں