پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی،محدود وسائل اور قابل کاشت زمینوں کے رقبہ کا سکڑناہے۔

کراچی (ایچ آراین ڈبلیو)‌ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ومعروف ماہر نباتیات پروفیسرڈاکٹر محمد قیصرنے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے،پاکستان بننے کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی جبکہ آج پاکستان کی آبادی تقریباً24 کروڑ ہے اور وسائل محدو د اورقابل کاشت زمینوں کا رقبہ سکڑتاجارہے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار غذائی قلت کے شکار ممالک میں ہونے لگا ہے۔ہم دنیا میں پانچویں،چھٹے نمبر پر گند م اور چاول پیداکرنے والے ممالک میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ذکر نہیں کرتے، اگر ہم نے اس حوالے سے ایمرجنسی بنیادوں پر کام نہیں کیا تو ہمیں خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پودوں اور جانوروں کو تحفظ فراہم کرناہوگا اور ادویات کی تیاری اور غذائی قلت پر قابوپانے کے لئے نئے پودے تلاش کرنے ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ نباتیات جامعہ کراچی کے زیر اہتمام کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول کی سماعت گاہ میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار بعنوان: ”پودوں کی حیاتیاتی تنوع اور خوراک کی حفاظت“ سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر قیصر نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور مستقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی سے متعلق قوانین موجودہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کا خمیازہ آج پوراملک بھگت رہاہے۔موسمیاتی تبدیلی خاص طور پر عالمی درجہ حرارت اور خشکی کو بڑھاکر تباہی مچارہی ہے۔

اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے فوڈ سیکیورٹی ایک اہم مسئلہ ہے،ہمیں نئے غذائی اجناس کو ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے۔سائنس نے ادویات کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں برپاکی ہیں،ہمیں بیلنس ایکوسسٹم، متوازن غذااور طرززندگی گزارنے کی ضرورت ہے،موسمیاتی تبدیلیوں نے کراچی کو بھی بہت زیادہ متاثر کیاہے۔حیاتیاتی تنوع ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ادویاتی پودے ہماری صحت کی بہتری میں کلیدی کرداراداکرتے ہیں۔عصرحاضر میں فطری دنیا سے تعلق استوار کرنے اور حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر کوششیں کرنی چاہئیں۔

رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کارلاکر اپنی غذائی ضروریات کو پوراکرنے کے ساتھ ساتھ زرعی زمین اور اجناس کے تحفظ کو بھی یقینی بنارہے ہیں جبکہ ہم تاحال عصر حاضر کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے۔ہمارے یہاں محققین تحقیق میں بھی آسانیاں تلاش کرتے ہیں جبکہ تحقیق پر جتنی محنت ہوگی اس کے نتائج بھی اتنے ہی اچھے برآمد ہوں گے۔

سابق ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی ڈاکٹر شاہد انجم نے کہا کہ حیاتیاتی وسائل قابل تجدید ہیں اور مناسب پائیدار انتظام اور تحفظ کی تکنیکوں سے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کی ماحولیاتی اور اقتصادی قدر دونوں ہے۔ حیاتیاتی تنوع کی اقدار کو ہمارے قومی اکاؤنٹنگ سسٹم میں جھلکنا چاہیئے۔

صدرشعبہ نباتیات جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر روبینہ عابد نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے محققین پرزوردیاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں اور غذائی قلت سے نبردآزمااور ان مسائل کے حل پر مبنی تحقیق کو فروغ دیں۔ ڈاکٹر صدف گل نے کلمات تشکر اداکرتے ہوئے کہا کہ حیاتیاتی تنوع کی حفاظت ایک مسلسل اور پیچیدہ کوشش ہے جو مسلسل لگن اور توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔